اعجاز کے بلاگ پر انور اقبال کی یہ نظم رومن اردو میں ہے۔ میں نے سوچا کہ کیوں نہ اسے اردو میں لکھا جائے۔
اے خدا تو ہمیں آئس کریم والے سے لے دے آئس کریم آ کر
بادبان کھلنے لگے پھر
کشتیاں سفر پر روانہ ہوئیں
دروازوں پہ دستک ہوئی
دھند میں بدلتے موسموں کی
خوف جاگا اندھے سفر کادیواروں پہ تصویریں سجائی گئیں
انکی جو کل تک
درمیان تھے ہمارے مگر اب
فقط نقش دیوار ہیں وہمگر اے خدا بندگی
فقط خوف کا سلسلہ تو نہیں ہے
لوٹ آ کہ ہمارے دلوں میں
وسوسے سر اٹھانے لگے ہیںدیکھ ہمارے صحن میں
بچپن کے وہ دن اب تک کھڑے ہیں
کہ جب تو ہمارے درمیان
خوشبوؤں کی طرح
موجود رہتا تھا ہر وقتلوٹ آ کہ جنگلوں کی دھندلی شام
منتظر ہے اب تک تیری آہٹوں کی
آ کہ شاخوں سے اترتی آس کی روشن لکیر
برسوں رستہ تکتی رہی ہے تیراآ کہ ہوا کی سرگوشیوں میں اب بھی
تیری واپسی کی خبر ہےیاد کر وہ دن کہ جب تو ہمارا
ہمسفر برسوں رہا تھا
خوشنما پرندوں کے پروں پہ
نام لکھ کر تیرا ہم
اپنے معصوم کھیلوں میں تیری موجودگی کی
شہادت دیتے رہے تھےتتلیوں کے رنگوں میں تیری مہک تھی
خواب تھے تعبیر جن کی
جگنووں کی روشنی میں ڈھونڈتے رہتے تھے ہم
ہمارے درمیان تو رات بھی حائل نہیں تھی
مہربان تھی جنگلوں کی شام ہم پہ
ساتھ رہتی تھی ہمارے
صبح کی پہلی کرن کی واپسی تکلیکن پھر جنگلوں کی شام پر
اجنبی چہروں کی پرچھائیاں پڑنے لگیں
کون تھے یہ لوگ ہم سے کہہ رہے تھے جو خدا
تتلیوں کے رنگ تیرے ہاتھ پہ سجتے نہیں
جگنووں کی روشنی سے بہتر ہے اندھیرے کا سفرآؤ خدا کو لے چلیں شہر کے بچوں سے دور
ہم نے ان کو آج تک دیکھا نہیں ہے، اے خدا
بارشوں میں بھیگتے، چاندنی میں
خواب کی آہٹیں سنتے ہوئے
وہ کہ جن کو آج تک آیا نہیں،
خوشبوؤں کی زبان میں لکھے
صحیفے پڑھ لینے کا ہنروہ کہ جن کی آنکھوں نے خود سپردگی کا معجزہ
آج تک دیکھا نہیں
یہ نہ آشانہ لذت ہجر و وصال نامہ بر
کیسے ہوا اس خدا کے حکم سے جس کی
ہجر کی راتوں میں بھی وصل کا ذائقہ رکھا گیاہم نے دیکھا ہے تجھے
بارشوں میں خوشبوؤں کا رنگ جگاتے، اے خدا
ہم نے دیکھا ہے
پہاڑوں سے اترتی شام کو آسمان سے گلے ملتے ہوئے
ہم نے دیکھا ہے
رات کے پچھلے پہر کا وصل
صبح کی پہلی کرن سے اے خدا،اے روشنیوں، رنگوں، امنگوں کے خدا لوٹ آ
ٹھہر گئی ہے جنگلوں کی شام دیکھ
انہی پگڈنڈیوں پہ تیرے ساتھ ہم جہاں
خوشنما پرندوں کے پر چنتے رہے تھےآ کہ ہم تتلیوں کے رنگ آنکھوں میں سجائے
جگنووں کی روشنی میں پیچھا کریں پھر رات کاپھر شام کو ساحلوں پر بھیگتے لوگوں میں بیٹھیں
اور اے خدا تو ہیمیں آئس کریم والے سے
لے دے آئس کریم آ کر
میرا خیال ہے کہ میں نے اس میں کئی غلطیاں کی ہیں۔ امید ہے آپ انہیں درست کرنے میں میری مدد کریں گے۔
اچھا کیا ترجمہ کر دیا ۔ میں نے اسے انگریزی حروف میں پڑھنے کی کوشش کی تھی مگر آدھی پڑھ کر تھک گیا تھا ۔
خوب ترجمہ کیا آپ نے،اچھی کاوش ہے !اور نظم بھی خوب ہے
zabardast… and thanks for writing it in urdu.. I am such a lazy bum after all… 🙂
ترجمہ نہیں کیا۔ صرف رومن اردو کو اردو رسم الخط میں کیا ہے۔
کم از کم کوئی مجھے یہ تو بتائے کہ وہ لفظ کیا ہے جہاں میں نے سوالیہ نشان ڈالا ہے۔
Hello