جوناتھن سے پتہ چلا کہ پاکستان اور اسرائیل کے وزرائے خارجہ نے استنبول میں ملاقات کی ہے۔ یہ کوئی ایسی نئی بات بھی نہیں ہے۔ آج سے دو سال پہلے جنرل مشرف نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا خیال ظاہر کیا تھا۔ مگر اس وقت اس کا کچھ نہ بنا ۔ پاکستان اور اسرائیل میں ملاقاتوں وغیرہ کی بات بھی نئی نہیں ہے۔ ایسا تو جناح سے لے کر ضیا اور نواز شریف کے دور تک ہوتا آیا ہے۔ میری پوسٹ کے علاوہ بی بی سی پر بھی اس تاریخ پر دو مضامین ہیں۔ پچھلے روابط میں فرق صرف یہ تھا کہ ان میں سے زیادہ تر خفیہ تھے۔
میرے خیال سے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کرنے میں کوئی مذائقہ نہیں ہے۔ بلکہ اسرائیل کو تسلیم کر لینا چاہیئے۔ اگر آپ کا خیال ہے کہ اسرائیل کے فلسطینیوں پر ظلم کی وجہ سے اسے نہیں ماننا چاہیئے تو پھر تو بہت سے ممالک کو ماننے سے انکار کرنا پڑے گا۔ مثال کے طور پر روس، چین، سوڈان، وغیرہ۔ اگر آپ کو یہودیوں سے کوئی خاص خار ہے تو آپ کے نفرت بھرے دل کا میں کچھ نہیں کر سکتا۔
جیسے میں پہلے لکھ چکا ہوں میری دانست میں اس ملاقات کی وجہ اسرائیل اور ہندوستان کے تعلقات ہیں۔ پاکستان کی دفاعی انتظامیہ کو خدشہ ہے کہ یہ تعلقات پاکستان کے لئے مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان اسرائیل سے دفاعی ساز و سامان اور ٹیکنالوجی بھی خریدنا چاہتا ہے۔ میرا گمان ہے کہ اسرائیل کھلے عام ملاقاتوں اور تسلیم کیے جانے کے بغیر یہ سب کچھ کرنے پر راضی نہ تھا۔ اگر پاکستان اسرائیل کو مان لے تو ان دونوں جوہری طاقتوں کو ایک دوسرے سے خطرہ نہیں رہے گا۔ اس کے علاوہ اسرائیل ہندوستان اور پاکستان میں سے کسی ایک کا ساتھ اور دوسرے کے مخالف ہوئے بغیر دونوں سے تجارت کر سکے گا۔ جوناتھن کے علاوہ بی بی سی کے عامر احمد خان اور Haaretz کا بھی یہی خیال ہے کہ اس ملاقات کی وجہ ہندوستان ہے۔ جون میں چھپنے والا یہ مضمون بھی پڑھنے لائق ہے۔
پاکستان میں اس خبر کا رد عمل کچھ ملا جلا تھا۔ مذہبی جماعتوں نے اسرائیل سے تعلقات پر احتجاج کیا جبکہ دوسری سیاسی جماعتوں نے کچھ شدید رد عمل کو مظاہرہ نہ کیا۔ پاکستانی اخبارات میں اس سلسلے میں جو کچھ لکھا گیا اس کے متعلق بی بی سی نے رپورٹ کیا ہے۔
عام لوگوں کا تاثر بی بی سی اور یروشلم پوسٹ میں موجود ہے۔ اس کے علاوہ بلاگرز بھی اپنے اپنے خیال کا اظہار کر رہے ہیں:
- میرے والد
- شعیب صفدر ، مزید
- میرا پاکستان کے افضل: ۱ ، ۲ ، ۳ ، ۴
- نبیل نقوی
- دانیال
- جہانزیب اشرف
- ضیا
- Raven
- Teeth Maestro
ایک ہندوستانی اخبار کی اس سلسلے میں خبر کچھ مزے کی لگی۔ اس کے علاوہ دو ہندوستانی بلاگرز (شعیب اور نتن) نے بھی اس خبر پر اظہار رائے کیا۔
ميرے خيال ميں يہ فلسطينيوں پر صرف ظلم کرنے کی وجہ سے نہيں ہے بلکہ اکثريت کو اقليت ميں بدل کر اپنے ہی وطن سے بے گھر کرنے کی وجہ سے ہے اور اوپر جو دوسرے ممالک آپ نے بيان کئے ہيں وہاں انکے اندرونی معاملات جو بھی رہے ہوں کسی دوسرے گروہ کو دنيا بھر سے اکھٹا کر کے اقليت ميں نہيں بدلا گيا۔ باقی ميں نے اپنی پوسٹ ميں بی بی سی کا لنک ديا ہے وہاں آپ ديکھ سکتے ہيں کہ کس طرح ٣٥٠٠٠ لوگوں کو تقريبا ايک ملين لوگوں کی اکثريت پر مسلط کيا گيا تھا۔”
Also add Raphael’s take here.
Thanks for this collection of links. When I have a moment, I intend to read all.
کسی زمانہ میں نے اسرائیل کے متعلق چند حقائق لکھے تھے ۔ اور میں نے ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا ۔ صرف بی بی سی کے انٹرویو کا نتیجہ لکھا تھا ۔ وندہ باد کراچی تو ایسے ہی مورال بوسٹنگ کے لئے لکھ دیا تھا ۔
Yar i think going on to accepting Israel as a state will be not advisable right now. Because we can use this to press (even if morally) the jewish state to live in peace with Muslims in that area.
جہانزیب: آپ کا کیا خیال ہے میں نے روس اور چین کا ذکر کیوں کیا؟ تبت اور سنکیانگ کو بھول رہے ہیں آپ۔ اسی طرح روس اور اس سے پہلے سوویت یونین کے بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں روسی نژاد نئے ہیں مگر کئی میں اب اکثریت انہی کی ہے۔
sepoy: Thanks for that link.
Moiz: While bargaining recognition for a Palestinian state seems appropriate for some of the frontline Arab states, I think it’s neither feasible nor useful for other Muslim countries.
Accepting israel is just matter of time coz goverment made decicions already.They r just preparing pplz mind ,spreading the news in media for less reaction.Well i think Musharaf is……like apni qabar khud hi khod raha kind of thing coz after accepting israel some crazy mullah blow him in pieces.My opinion is we have to face the reality & have to take step for peace & must talk with israel on various matters.
آپ احمق آپ کا باپ احمق
زیشان: تمیز سے بات کریں۔
میرے خیال میں پاکستان کو چاہیے کہ وہ اسراءیل کوتسلیم کر لے۔یہی موجودہ وقت کی سب سے بہتر تحویر اور حل ہے اپنے حالات کو بہتر کرنے کا۔